۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
پارا چنار

حوزہ/ پارا چنار کا سانحہ ایک ایسا واقعہ ہے جو صرف ایک علاقے کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ ملکی نظام کی ناکامی اور حکمرانوں کی غفلت اور بے حسی کا ایک المناک باب بھی ہے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| پارا چنار کا سانحہ ایک ایسا واقعہ ہے جو صرف ایک علاقے کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ ملکی نظام کی ناکامی اور حکمرانوں کی غفلت اور بے حسی کا ایک المناک باب بھی ہے۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کے بیانات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ اس واقعے کو محض ایک حادثہ سمجھنا سنگین غلطی ہوگی، بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ظلم ہے۔

یہ سانحہ اُس وقت پیش آیا جب مسافروں کا ایک قافلہ قلیل سیکورٹی کے ساتھ روانہ ہوا اور دہشتگردوں نے تین مختلف مقامات پر اُن پر حملہ کیا۔ میڈیا رپورٹس اور عینی شاہدین کی گواہیوں سے یہ بات سامنے آئی کہ مندوری، بھگن اور اوچھات جیسے علاقوں میں قافلے کو نشانہ بنایا گیا، جہاں مختلف مورچوں سے فائرنگ ہوتی رہی۔ یہ فائرنگ 14 کلومیٹر تک جاری رہی اور قافلے کو مختلف علاقوں میں بار بار نشانہ بنایا گیا۔

یہ سانحہ ثابت کرتا ہے کہ علاقے میں دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے، جو کہ حکمرانوں کی غفلت کا واضح ثبوت ہے۔ عوام کی شکایات کے باوجود قافلے کو مناسب تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں معصوم شہریوں، خواتین اور بچوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے اس واقعے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے حکمرانوں سے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر ظالموں اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا گیا تو عوام ایک نہ رکنے والے احتجاج کے لیے تیار ہیں۔ یہ احتجاج نہ صرف حکمرانوں کی ناکامیوں کو بے نقاب کرے گا بلکہ عوامی طاقت کا مظاہرہ بھی ہوگا۔

علامہ ساجد نقوی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ خطہ طویل عرصے سے ظلم، جبر اور تشدد کا شکار ہے اور حکمرانوں کی بے عملی نے عوام کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس صورت حال میں حکمرانوں کے بیانات اور وعدے ناکافی ہیں اور فوری عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

پارا چنار کا سانحہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ظلم ناانصافی اور حکمرانوں کی بے حسی کا تسلسل ہے۔ اس سانحے نے عوام کے دلوں میں غم و غصے کی آگ بھڑکا دی ہے، جو کسی بڑے احتجاج کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے واضح کیا ہے کہ اگر زمینی حقائق کے مطابق مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو عوامی بیداری ایک ناقابلِ کنٹرول تحریک کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

پارا چنار کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت جو امدادی کام کیے ہیں، وہ ان کی قربانیوں اور استقامت کا ثبوت ہیں۔ جب حکومتی مشینری ناکام ہو جائے اور حکمران ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، تو یہی عوام اپنی جانیں بچانے کے لیے آگے آتی ہے۔ یہ رویہ قابل تحسین ضرور ہے؛ لیکن حکمرانوں کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔

علامہ ساجد نقوی کے انتباہات صرف حکمرانوں کو متوجہ کرنے کے لیے نہیں، بلکہ یہ عوام کو منظم اور بیدار کرنے کی کوشش بھی ہیں۔ اُن کے بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ظلم کے خلاف عوام کی خاموشی اب ٹوٹ چکی ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کو تیار ہیں اور اگر حکومت نے مزید غفلت برتی تو یہ احتجاج پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔

قافلے پر حملہ اور دہشتگردوں کی 14 کلومیٹر تک بلا خوف کاروائیاں اس بات کی واضح مثال ہیں کہ یہ کوئی اتفاقیہ حملہ نہیں تھا، بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا واقعہ تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حساس علاقے میں دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ کیسے ملی؟ کیا یہ محض انتظامی ناکامی ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما ہیں؟

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشتگرد گروہوں کو کچھ عناصر کی سرپرستی حاصل ہے، جو نہ صرف ان کی کاروائیوں کو ممکن بناتی ہے بلکہ انہیں بچ نکلنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ حکمرانوں کو ان عناصر کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے سانحات کا دوبارہ رونما ہونا روکا جا سکے۔

پارا چنار جیسے حساس علاقے میں امن و امان کے قیام کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ حکومتی سطح پر درج ذیل تجاویز پر عمل درآمد ضروری ہے:

1. دہشتگردوں کے خلاف کریک ڈاؤن: ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو نشانہ بنا کر انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

2. سیکورٹی کے اقدامات کا جائزہ: قافلوں اور عوام کی حفاظت کے لیے سیکورٹی پروٹوکول کو مزید مضبوط بنایا جائے۔

3. مقامی عوام کے تحفظات دور کرنا: عوام کے شکوے اور شکایات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کے خدشات کا ازالہ کیا جائے۔

4. شفاف تحقیقات: سانحے کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعیّن کیا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔

5. عوامی شمولیت: مقامی کمیونٹی کو امن و امان کی بحالی کے عمل میں شامل کیا جائے تاکہ وہ خود اپنی حفاظت کے لیے تیار رہ سکیں۔

سانحہ کرم نے نہ صرف پارا چنار بلکہ پورے ملک میں عوامی جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اپنی روایتی بے حسی کو ترک کرے اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو عوام کا یہ غم و غصہ ایک بڑی تحریک میں تبدیل ہو سکتا ہے، جو حکمرانوں کے لیے ناقابلِ برداشت چیلنج ثابت ہوگا۔

پارا چنار کے مظلوم عوام کا خون کسی ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت ان کے زخموں پر مرہم رکھے، نہ کہ ان کے صبر کا امتحان لے۔

انصاف کا قیام اور عوامی اعتماد کی بحالی حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہے، کیونکہ مظلوموں کے خون سے لکھی گئی اس المناک داستان کو نظر انداز کرنا نہ صرف ان کی اخلاقی شکست ہوگی بلکہ ان کے اقتدار کی بنیادوں کو بھی ہلا سکتا ہے۔ یہ وقت زبانی دعووں یا روایتی بیانات کا نہیں بلکہ فوری اور عملی اقدامات کا ہے۔

اگر حکمران اب بھی خاموش رہے اور مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کو نظر انداز کیا تو یہ بیدار عوام کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے اور عوام اپنی بقا کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، تو کوئی طاقت ان کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ یہ لمحہ فیصلہ کُن ہے اور حکمرانوں کو اب بیدار ہو کر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ عوام کے محافظ ہیں، نہ کہ ظالموں کے سہولت کار۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .